۳۰ شهریور ۱۴۰۳ |۱۶ ربیع‌الاول ۱۴۴۶ | Sep 20, 2024
عطر قرآن

حوزہ/ اس آیت سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ معجزے اور نشانیوں کی طلب کوئی حقیقی ایمانی تقاضا نہیں ہے بلکہ اکثر اوقات یہ ضد اور عناد کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ایمان کا تعلق دل کی صفائی اور حق کے قبول کرنے سے ہوتا ہے نہ کہ ظاہری معجزات پر اصرار سے۔ یہ آیت مسلمانوں کو بھی اس بات کی نصیحت کرتی ہے کہ وہ اپنے ایمان کو شک و شبہ سے پاک رکھیں اور انبیاء کی تعلیمات پر مکمل یقین رکھیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی|

بسم الله الرحـــمن الرحــــیم

الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللّهَ عَهِدَ إِلَيْنَا أَلاَّ نُؤْمِنَ لِرَسُولٍ حَتَّى يَأْتِيَنَا بِقُرْبَانٍ تَأْكُلُهُ النَّارُ قُلْ قَدْ جَاءَكُمْ رُسُلٌ مِّن قَبْلِي بِالْبَيِّنَاتِ وَبِالَّذِي قُلْتُمْ فَلِمَ قَتَلْتُمُوهُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ. سورہ آل عمران، آیت ۱۸۳

ترجمہ: یہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ خدا نے ہم سے عہد لے لیا ہے کہ ہم کسی رسول پر اس وقت تک ایمان نہ لائیں جب تک کہ وہ ایسی قربانی نہ پیش کرے جسے آگ کھا جائے۔ آپ کہہ دیجئے کہ مجھ سے پہلے بہت سے رسول تمہارے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے اور وہ قربانی بھی لے کر آئے جس کا تم ذکر کرتے ہو، پھر تم نے انہیں قتل کیوں کر ڈالا اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو؟

موضوع:

یہ آیت ان یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی جو حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی رسالت کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے دلیل دیتے تھے کہ اللہ نے ان سے عہد لیا ہے کہ وہ اس وقت تک کسی نبی پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک وہ معجزہ نہ دکھائے کہ اس کی پیش کردہ قربانی کو آگ آسمان سے آ کر کھا لے۔

پس منظر:

یہ آیت مدینہ کے یہودیوں کے رویے اور ان کے انکار کو بیان کرتی ہے۔ یہودی یہ دعویٰ کرتے تھے کہ ان کے آبا و اجداد نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور دیگر انبیاء سے یہی شرط عائد کی تھی کہ جب تک وہ آسمانی نشانیاں نہ دکھائیں، وہ ان پر ایمان نہیں لائیں گے۔ اسی بنا پر انہوں نے رسول اکرمﷺ کی رسالت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور مطالبہ کیا کہ آپ ﷺ بھی ایسی ہی نشانی پیش کریں۔

تفسیر:

اس آیت میں اللہ تعالیٰ یہودیوں کی بے بنیاد شرط کو رد کرتے ہوئے فرما رہا ہے کہ اگر تمہاری بات میں سچائی ہوتی تو تم نے انبیاء کو قتل کیوں کیا جنہوں نے تمہارے مطالبہ کے مطابق نشانیاں دکھائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کا یہ مطالبہ صرف بہانہ تھا اور ان کے دلوں میں کفر اور ضد تھی۔قرآن مجید نے اس آیت میں یہ بھی واضح کر دیا کہ معجزے اور نشانیاں دکھانے کے باوجود انکار کرنے والوں کا انجام ہمیشہ تباہی اور ذلت ہوتی ہے۔ یہودیوں کی یہ ضد اور ہٹ دھرمی ان کی اپنے اعمال کی اصلاح کے بجائے انبیاء کی مخالفت اور قتل تک پہنچ چکی تھی۔

نتیجہ:

اس آیت سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ معجزے اور نشانیوں کی طلب کوئی حقیقی ایمانی تقاضا نہیں ہے بلکہ اکثر اوقات یہ ضد اور عناد کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ایمان کا تعلق دل کی صفائی اور حق کے قبول کرنے سے ہوتا ہے نہ کہ ظاہری معجزات پر اصرار سے۔ یہ آیت مسلمانوں کو بھی اس بات کی نصیحت کرتی ہے کہ وہ اپنے ایمان کو شک و شبہ سے پاک رکھیں اور انبیاء کی تعلیمات پر مکمل یقین رکھیں۔

•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•

تفسیر راہنما، سورہ آل عمران

تبصرہ ارسال

You are replying to: .